Followers

Total Pageviews

Monday, February 6, 2012

تُجھ سے ناراض نہیں زندگی حیران ہوں میں


اُردو شاعری ٭٭٭ ثمینہ راجہ٭٭٭






وفا وہ شخص میرے ساتھ بھی نہ کر پایا


میری راتیں تیری یادوں سے بجتی ہیں


وُہ مُجھے اکثر کہتی ہے


دُ کھ بولتے ہیں



تُم مُجھے گُڑیا کہتے ہو



زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا



پوری مہندی بھی لگانی نہیں آتی



Saturday, February 4, 2012

تھی اس قدر عجیب مسافت کہ کچھ نہ پوچھ




اہل اسلام کوعید میلاد النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم مبارک ہو



ہر ذرہ جگمگایا ہے کہ نور والا آیا ہے ..نعت شریف




[IMG]


Thi muntizar yeh dunya jis shah e wala ki
Jinn o bashar nay gaya hai kay noor wala aaya hai


[IMG]


Thehri hui thein nudyan, jo aaj chal pari hain
Barah Rabi ul awal ko noor wala aaya hai


[IMG]


Ghar ghar charaghan karlo, aamad hai aaqa ki
Har dil nay khushi say gaya hai kay noor wala aaya hai


[IMG]


Yeh aaj khushiyon ka mosam hai arsh o farsh per
Naray lagay hain aamad kay haan noor wala aaya hai


[IMG]


Taiba ka chand chamka jo rehber hai hum sub ka
Aaqa ko hum nay paya hai, kay noor wala aaya hai


[IMG]


Kar khush sukhan ali ko aie Rab e Zuljilal
Jis nay lagaya nara hai kay noor wala aaya hai


[IMG]

زندگی انسان کی اک دم کے سواِِ،،،



پھول مانگوں تو عطا کرتے ہیں زخموں کے کنول

اقبال کا مرد مسلمان

کوبکو پھیل گئی بات شناسائی کی

عصمت اللہ 


Thursday, February 2, 2012

عشق کو آگ کا دریا میں لکھوں کیسے لکھوں



عشق کو آگ کا دریا میں لکھوں کیسے لکھوں 
حسن کو چاند سا چہرہ میں لکھوں کیسے لکھوں 

کیا سفر نامہ ء صحرائے محبت میں لکھوں
دشت ِ آشوب میں جلنا میں لکھوں کیسے لکھوں 

ڈوب کر کیا کوئی اُبھرا ہے سفینہ دل کا
بحر ِ کلفت سے اُبھرنا میں لکھوں کیسے لکھوں 

حسن ِ یوسف کی تو عاشق ہے خدائی ساری
اک زلیخا کا ہی قصہ میں لکھوں کیسے لکھوں

شب سے پہلے ہی یہ دل چاند سا چہرہ مانگے
دل ِ نادان ہے پگلا میں لکھوں کیسے لکھوں 

آنکھ کھل جائے تو تنہائی سے خوف آتا ہے
ہجر ِ مژگاں میں سلگلنا میں لکھوں کیسے لکھوں 

کیوں محبت کی نشانی کو لکھوں تاج محل
عشق کی قید کا نوحہ میں لکھوں کیسے لکھوں 

قتل ہوتے ہیں زمانے میں سوئے حشررقیب
میرا قاتل ہے مسیحا میں لکھوں کیسے لکھوں 

سنگ برسے تو مرے دوست تماشائی تھے
سنگ دل شہر تھا سارا میں لکھوں کیسے لکھوں 

سوئے محشر نہ قلم ہے نہ سیاہی نہ دوات
مرگِ درویش کا قصّہ میں لکھوں کیسے لکھوں

ذکر شبِ فراق سے وحشت


میری پسند
ذکر شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کےچلنے کی عادت اسے بھی تھی

اس رات دیر تک رہا وہ محوِ گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی

مجھ سے بچھڑ ا تو شہر میں‌ گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی

وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی

سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی

تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
سائےسے پیار دھوپ سے نفرت اسےبھی تھی

محسن میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی

Wednesday, February 1, 2012

اے میری زندگی کے خواب




اے میری زندگی کے خواب شام بخیر شب بخیر
ڈوب چلا ہے آفتاب، شام بخیر شب بخیر

ایسا نہ ہو کہ دن ڈھلے روح کا زخم کھل اٹھے
کیسے کہوں مرے گلاب، شام بخیر شب بخیر

تیرہ شبی کی وحشتیں اب کوئی دن کی بات ہے
خلوت جاں کے ماہتاب، شام بخیر شب بخیر

میں بھی وفا سرشت ہوں پاس وفا تجھے بھی ہے
دونوں کھلی ہوئی کتاب، شام بخیر شب بخیر

موسم ابر و باد سے اب جو ڈریں تو کس لیئے
کھل کے برس چکا سحاب، شام بخیر شب بخیر

میری نظر، مرا شعور، مری غزل، مرا جنوں
سب کا تجھے سے انتساب، شام بخیر شب بخیر

وہ اپنے گھر چلا گیا افسوس مت کرو



سارے وعدوں کو بھلا سکتا ہوں مگر رہنے دو




احمد فراز کے آخری الفاظ



کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی



کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی 
صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی 



اپنوں نے تج دیا ہے تو غیروں میں جا کے بیٹھ 
اے خانماں خراب! نہ تنہا شراب پی 


تو ہم سفر نہیں ہے تو کیا سیرِ گلستاں 
تو ہم سبو نہیں ہے تو پھر کیا شراب پی 


اے دل گرفتۂ غم جاناں سبو اٹھا 
اے کشتۂ جفائے زمانہ شراب پی 


دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی 
دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی
 

دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی 
اک مہرباں بزرگ نے یہ مشورہ دیا 


دکھ کا کوئی علاج نہیں ، جا شراب پی 
بادل گرج رہا تھا ادھر محتسب ادھر 
پھر جب تلک یہ غقدہ نہ سلجھا شراب پی



اے تو کہ تیرے در پہ ہیں رندوں کے جمگھٹے 
اک روز اس فقیر کے گھر آ ، شراب پی 


دو جام ان کے نام بھی اے پیر میکدہ 
جن رفتگاں کے ساتھ ہمیشہ شراب پی
 

کل ہم سے اپنا یار خفا ہوگیا فراز
شاید کہ ہم نے حد سے زیادہ شراب پی 


احمد ‌فراز


"""""""""""""""""""""""""

Ankhain Bheeg Jati Hain



Faslay Qurb Ke Pehchan Hova Karte Hain


Daman Tu Chura Na Lo Ge