وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اپنی دکھ نہ اوروں کا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر کچھ اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں ، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا ، بے وفائی نہ تھی
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا ، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن
سدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی
سدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی نہ تھی
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھؤ
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی