Followers
Total Pageviews
Wednesday, February 8, 2012
Monday, February 6, 2012
Saturday, February 4, 2012
ہر ذرہ جگمگایا ہے کہ نور والا آیا ہے ..نعت شریف
Thi muntizar yeh dunya jis shah e wala ki
Jinn o bashar nay gaya hai kay noor wala aaya hai
Jinn o bashar nay gaya hai kay noor wala aaya hai
Thehri hui thein nudyan, jo aaj chal pari hain
Barah Rabi ul awal ko noor wala aaya hai
Barah Rabi ul awal ko noor wala aaya hai
Ghar ghar charaghan karlo, aamad hai aaqa ki
Har dil nay khushi say gaya hai kay noor wala aaya hai
Har dil nay khushi say gaya hai kay noor wala aaya hai
Yeh aaj khushiyon ka mosam hai arsh o farsh per
Naray lagay hain aamad kay haan noor wala aaya hai
Naray lagay hain aamad kay haan noor wala aaya hai
Taiba ka chand chamka jo rehber hai hum sub ka
Aaqa ko hum nay paya hai, kay noor wala aaya hai
Aaqa ko hum nay paya hai, kay noor wala aaya hai
Kar khush sukhan ali ko aie Rab e Zuljilal
Jis nay lagaya nara hai kay noor wala aaya hai
Jis nay lagaya nara hai kay noor wala aaya hai
Thursday, February 2, 2012
عشق کو آگ کا دریا میں لکھوں کیسے لکھوں
عشق کو آگ کا دریا میں لکھوں کیسے لکھوں
حسن کو چاند سا چہرہ میں لکھوں کیسے لکھوں
کیا سفر نامہ ء صحرائے محبت میں لکھوں
دشت ِ آشوب میں جلنا میں لکھوں کیسے لکھوں
ڈوب کر کیا کوئی اُبھرا ہے سفینہ دل کا
بحر ِ کلفت سے اُبھرنا میں لکھوں کیسے لکھوں
حسن ِ یوسف کی تو عاشق ہے خدائی ساری
اک زلیخا کا ہی قصہ میں لکھوں کیسے لکھوں
شب سے پہلے ہی یہ دل چاند سا چہرہ مانگے
دل ِ نادان ہے پگلا میں لکھوں کیسے لکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی سے خوف آتا ہے
ہجر ِ مژگاں میں سلگلنا میں لکھوں کیسے لکھوں
کیوں محبت کی نشانی کو لکھوں تاج محل
عشق کی قید کا نوحہ میں لکھوں کیسے لکھوں
قتل ہوتے ہیں زمانے میں سوئے حشررقیب
میرا قاتل ہے مسیحا میں لکھوں کیسے لکھوں
سنگ برسے تو مرے دوست تماشائی تھے
سنگ دل شہر تھا سارا میں لکھوں کیسے لکھوں
سوئے محشر نہ قلم ہے نہ سیاہی نہ دوات
مرگِ درویش کا قصّہ میں لکھوں کیسے لکھوں
حسن کو چاند سا چہرہ میں لکھوں کیسے لکھوں
کیا سفر نامہ ء صحرائے محبت میں لکھوں
دشت ِ آشوب میں جلنا میں لکھوں کیسے لکھوں
ڈوب کر کیا کوئی اُبھرا ہے سفینہ دل کا
بحر ِ کلفت سے اُبھرنا میں لکھوں کیسے لکھوں
حسن ِ یوسف کی تو عاشق ہے خدائی ساری
اک زلیخا کا ہی قصہ میں لکھوں کیسے لکھوں
شب سے پہلے ہی یہ دل چاند سا چہرہ مانگے
دل ِ نادان ہے پگلا میں لکھوں کیسے لکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی سے خوف آتا ہے
ہجر ِ مژگاں میں سلگلنا میں لکھوں کیسے لکھوں
کیوں محبت کی نشانی کو لکھوں تاج محل
عشق کی قید کا نوحہ میں لکھوں کیسے لکھوں
قتل ہوتے ہیں زمانے میں سوئے حشررقیب
میرا قاتل ہے مسیحا میں لکھوں کیسے لکھوں
سنگ برسے تو مرے دوست تماشائی تھے
سنگ دل شہر تھا سارا میں لکھوں کیسے لکھوں
سوئے محشر نہ قلم ہے نہ سیاہی نہ دوات
مرگِ درویش کا قصّہ میں لکھوں کیسے لکھوں
ذکر شبِ فراق سے وحشت
میری پسند
ذکر شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کےچلنے کی عادت اسے بھی تھی
اس رات دیر تک رہا وہ محوِ گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی
مجھ سے بچھڑ ا تو شہر میں گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی
وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی
سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
سائےسے پیار دھوپ سے نفرت اسےبھی تھی
محسن میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کےچلنے کی عادت اسے بھی تھی
اس رات دیر تک رہا وہ محوِ گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی
مجھ سے بچھڑ ا تو شہر میں گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی
وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی
سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
سائےسے پیار دھوپ سے نفرت اسےبھی تھی
محسن میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی
Wednesday, February 1, 2012
اے میری زندگی کے خواب
اے میری زندگی کے خواب شام بخیر شب بخیر
ڈوب چلا ہے آفتاب، شام بخیر شب بخیر
ایسا نہ ہو کہ دن ڈھلے روح کا زخم کھل اٹھے
کیسے کہوں مرے گلاب، شام بخیر شب بخیر
تیرہ شبی کی وحشتیں اب کوئی دن کی بات ہے
خلوت جاں کے ماہتاب، شام بخیر شب بخیر
میں بھی وفا سرشت ہوں پاس وفا تجھے بھی ہے
دونوں کھلی ہوئی کتاب، شام بخیر شب بخیر
موسم ابر و باد سے اب جو ڈریں تو کس لیئے
کھل کے برس چکا سحاب، شام بخیر شب بخیر
میری نظر، مرا شعور، مری غزل، مرا جنوں
سب کا تجھے سے انتساب، شام بخیر شب بخیر
کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی
کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی
صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی
اپنوں نے تج دیا ہے تو غیروں میں جا کے بیٹھ
اے خانماں خراب! نہ تنہا شراب پی
تو ہم سفر نہیں ہے تو کیا سیرِ گلستاں
تو ہم سبو نہیں ہے تو پھر کیا شراب پی
اے دل گرفتۂ غم جاناں سبو اٹھا
اے کشتۂ جفائے زمانہ شراب پی
دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی
دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی
دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی
اک مہرباں بزرگ نے یہ مشورہ دیا
دکھ کا کوئی علاج نہیں ، جا شراب پی
بادل گرج رہا تھا ادھر محتسب ادھر
پھر جب تلک یہ غقدہ نہ سلجھا شراب پی
اے تو کہ تیرے در پہ ہیں رندوں کے جمگھٹے
اک روز اس فقیر کے گھر آ ، شراب پی
دو جام ان کے نام بھی اے پیر میکدہ
جن رفتگاں کے ساتھ ہمیشہ شراب پی
کل ہم سے اپنا یار خفا ہوگیا فراز
شاید کہ ہم نے حد سے زیادہ شراب پی
احمد فراز
"""""""""""""""""""""""""
صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی
اپنوں نے تج دیا ہے تو غیروں میں جا کے بیٹھ
اے خانماں خراب! نہ تنہا شراب پی
تو ہم سفر نہیں ہے تو کیا سیرِ گلستاں
تو ہم سبو نہیں ہے تو پھر کیا شراب پی
اے دل گرفتۂ غم جاناں سبو اٹھا
اے کشتۂ جفائے زمانہ شراب پی
دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی
دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی
دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی
اک مہرباں بزرگ نے یہ مشورہ دیا
دکھ کا کوئی علاج نہیں ، جا شراب پی
بادل گرج رہا تھا ادھر محتسب ادھر
پھر جب تلک یہ غقدہ نہ سلجھا شراب پی
اے تو کہ تیرے در پہ ہیں رندوں کے جمگھٹے
اک روز اس فقیر کے گھر آ ، شراب پی
دو جام ان کے نام بھی اے پیر میکدہ
جن رفتگاں کے ساتھ ہمیشہ شراب پی
کل ہم سے اپنا یار خفا ہوگیا فراز
شاید کہ ہم نے حد سے زیادہ شراب پی
احمد فراز
"""""""""""""""""""""""""
Subscribe to:
Posts (Atom)