Followers

Total Pageviews

Thursday, February 2, 2012

ذکر شبِ فراق سے وحشت


میری پسند
ذکر شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کےچلنے کی عادت اسے بھی تھی

اس رات دیر تک رہا وہ محوِ گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی

مجھ سے بچھڑ ا تو شہر میں‌ گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی

وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی

سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی

تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
سائےسے پیار دھوپ سے نفرت اسےبھی تھی

محسن میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی

Wednesday, February 1, 2012

اے میری زندگی کے خواب




اے میری زندگی کے خواب شام بخیر شب بخیر
ڈوب چلا ہے آفتاب، شام بخیر شب بخیر

ایسا نہ ہو کہ دن ڈھلے روح کا زخم کھل اٹھے
کیسے کہوں مرے گلاب، شام بخیر شب بخیر

تیرہ شبی کی وحشتیں اب کوئی دن کی بات ہے
خلوت جاں کے ماہتاب، شام بخیر شب بخیر

میں بھی وفا سرشت ہوں پاس وفا تجھے بھی ہے
دونوں کھلی ہوئی کتاب، شام بخیر شب بخیر

موسم ابر و باد سے اب جو ڈریں تو کس لیئے
کھل کے برس چکا سحاب، شام بخیر شب بخیر

میری نظر، مرا شعور، مری غزل، مرا جنوں
سب کا تجھے سے انتساب، شام بخیر شب بخیر

وہ اپنے گھر چلا گیا افسوس مت کرو



سارے وعدوں کو بھلا سکتا ہوں مگر رہنے دو




احمد فراز کے آخری الفاظ